وصال
جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے
خوبئ قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے
*
خود تڑپتا تھا ، چمن والوں کو تڑپاتا تھا میں
تجھ کو جب رنگیں نوا پاتا تھا ، شرماتا تھا میں
*
میرے پہلو میں دل مضطر نہ تھا ، سیماب تھا
ارتکاب جرم الفت کے لیے بے تاب تھا
*
نامرادی محفل گل میں مری مشہور تھی
صبح میری آئنہ دار شب دیجور تھی
*
از نفس در سینۂ خوں گشتہ نشتر داشتم
زیر خاموشی نہاں غوغائے محشر داشتم
*
اب تاثر کے جہاں میں وہ پریشانی نہیں
اہل گلشن پر گراں میری غزل خوانی نہیں
*
عشق کی گرمی سے شعلے بن گئے چھالے مرے
کھلیتے ہیں بجلیوں کے ساتھ اب نالے مرے
*
غازۂ الفت سے یہ خاک سیہ آئینہ ہے
اور آئینے میں عکس ہمدم دیرینہ ہے
*