سلیمی
جس کی نمود دیکھی چشم ستارہ بیں نے
خورشید میں ، قمر میں ، تاروں کی انجمن میں
*
صوفی نے جس کو دل کے ظلمت کدے میں پایا
شاعر نے جس کو دیکھا قدرت کے بانکپن میں
*
جس کی چمک ہے پیدا ، جس کی مہک ہویدا
شبنم کے موتیوں میں ، پھولوں کے پیرہن میں
*
صحرا کو ہے بسایا جس نے سکوت بن کر
ہنگامہ جس کے دم سے کاشانۂ چمن میں
*
ہر شے میں ہے نمایاں یوں تو جمال اس کا
آنکھوں میں ہے سلیمی تیری کمال اس کا
***