عاشق ہر جائی
(۱)
ہے عجب مجموعۂ اضداد اے اقبال تو
رونق ہنگامۂ محفل بھی ہے، تنہا بھی ہے
*
تیرے ہنگاموں سے اے دیوانۂ رنگیں نوا!
زینت گلشن بھی ہے ، آرائش صحرا بھی ہے
*
ہم نشیں تاروں کا ہے تو رفعت پرواز سے
اے زمیں فرسا ، قدم تیرا فلک پیما بھی ہے
*
عین شغل میں پیشانی ہے تیری سجدہ ریز
کچھ ترے مسلک میں رنگ مشرب مینا بھی ہے
*
مثل بوئے گل لباس رنگ سے عریاں ہے تو
ہے تو حکمت آفریں ، لیکن تجھے سودا بھی ہے
*
جانب منزل رواں بے نقش پا مانند موج
اور پھر افتادہ مثل ساحل دریا بھی ہے
*
حسن نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کے لیے
پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پروا بھی ہے
*