عاشق ہر جائی
(۲)
عشق کی آشفتگی نے کر دیا صحرا جسے
مشت خاک ایسی نہاں زیر قبا رکھتا ہوں میں
*
ہیں ہزاروں اس کے پہلو ، رنگ ہر پہلو کا اور
سینے میں ہیرا کوئی ترشا ہوا رکھتا ہوں میں
*
دل نہیں شاعر کا ، ہے کیفیتوں کی رستخیز
کیا خبر تجھ کو درون سینہ کیا رکھتا ہوں میں
*
آرزو ہر کیفیت میں اک نئے جلوے کی ہے
مضطرب ہوں ، دل سکوں نا آشنا رکھتا ہوں میں
*
گو حسین تازہ ہے ہر لحظہ مقصود نظر
حسن سے مضبوط پیمان وفا رکھتا ہوں میں
*
بے نیازی سے ہے پیدا میری فطرت کا نیاز
سوز و ساز جستجو مثل صبا رکھتا ہوں میں
*
موجب تسکیں تماشائے شرار جستہ اے
ہو نہیں سکتا کہ دل برق آشنا رکھتا ہوں میں
*
ہر تقاضا عشق کی فطرت کا ہو جس سے خموش
آہ! وہ کامل تجلی مدعا رکھتا ہوں میں
*