کوشش نا تمام
فرقت آفتاب میں کھاتی ہے پیچ و تاب صبح
چشم شفق ہے خوں فشاں اختر شام کے لیے
*
رہتی ہے قیس روز کو لیلی شام کی ہوس
اختر صبح مضطرب تاب دوام کے لیے
*
کہتا تھا قطب آسماں قافلۂ نجوم سے
ہمرہو ، میں ترس گیا لطف خرام کے لیے
*
سوتوں کو ندیوں کا شوق ، بحر کا ندیوں کو عشق
موجۂ بحر کو تپش ماہ تمام کے لیے
*
حسن ازل کہ پردۂ لالہ و گل میں ہے نہاں
کہتے ہیں بے قرار ہے جلوۂ عام کے لیے
*
راز حیات پو چھ لے خضر خجستہ گام سے
زندہ ہر ایک چیز ہے کوشش ناتمام سے
***