نوائے غم
زندگانی ہے مری مثل رباب خاموش
جس کی ہر رنگ کے نغموں سے ہے لبریز آغوش
*
بربط کون و مکاں جس کی خموشی پہ نثار
جس کے ہر تار میں ہیں سینکڑوں نغموں کے مزار
*
محشرستان نوا کا ہے امیں جس کا سکوت
اور منت کش ہنگامہ نہیں جس کا سکوت
*
آہ! امید محبت کی بر آئی نہ کبھی
چوٹ مضراب کی اس ساز نے کھائی نہ کبھی
*
مگر آتی ہے نسیم چمن طور کبھی
سمت گردوں سے ہوائے نفس حور کبھی
*
چھیڑ آہستہ سے دیتی ہے مرا تار حیات
جس سے ہوتی ہے رہا روح گرفتار حیات
*
نغمہ یاس کی دھیمی سی صدا اٹھتی ہے
اشک کے قافلے کو بانگ درا اٹھتی ہے
*
جس طرح رفعت شبنم ہے مذاق رم سے
میری فطرت کی بلندی ہے نوائے غم سے
***