33%

نوائے غم

زندگانی ہے مری مثل رباب خاموش

جس کی ہر رنگ کے نغموں سے ہے لبریز آغوش

*

بربط کون و مکاں جس کی خموشی پہ نثار

جس کے ہر تار میں ہیں سینکڑوں نغموں کے مزار

*

محشرستان نوا کا ہے امیں جس کا سکوت

اور منت کش ہنگامہ نہیں جس کا سکوت

*

آہ! امید محبت کی بر آئی نہ کبھی

چوٹ مضراب کی اس ساز نے کھائی نہ کبھی

*

مگر آتی ہے نسیم چمن طور کبھی

سمت گردوں سے ہوائے نفس حور کبھی

*

چھیڑ آہستہ سے دیتی ہے مرا تار حیات

جس سے ہوتی ہے رہا روح گرفتار حیات

*

نغمہ یاس کی دھیمی سی صدا اٹھتی ہے

اشک کے قافلے کو بانگ درا اٹھتی ہے

*

جس طرح رفعت شبنم ہے مذاق رم سے

میری فطرت کی بلندی ہے نوائے غم سے

***