عشر ت امروز
نہ مجھ سے کہہ کہ اجل ہے پیام عیش و سرور
نہ کھینچ نقشۂکیفیّتِ شراب طہور
*
فراق حور میں ہو غم سے ہمکنار نہ تو
پری کو شیشۂ الفاظ میں اتار نہ تو
*
مجھے فریفتۂ ساقی جمیل نہ کر
بیان حور نہ کر ، ذکر سلسبیل نہ کر
*
مقام امن ہے جنت ، مجھے کلام نہیں
شباب کے لیے موزوں ترا پیام نہیں
*
شباب ، آہ! کہاں تک امیدوار رہے
وہ عیش ، عیش نہیں ، جس کا انتظار رہے
*
وہ حسن کیا جو محتاج چشم بینا ہو
نمود کے لیے منت پذیر فردا ہو
*
عجیب چیز ہے احساس زندگانی کا
عقیدہ "عشرت امروز" ہے جوانی کا
***