انسان
قدرت کا عجیب یہ ستم ہے!
انسان کو راز جو بنایا
راز اس کی نگاہ سے چھپایا
*
بے تاب ہے ذوق آگہی کا
کھلتا نہیں بھید زندگی کا
*
حیرت آغاز و انتہا ہے
آئینے کے گھر میں اور کیا ہے
*
ہے گرم خرام موج دریا
دریا سوئے سجر جادہ پیما
*
بادل کو ہوا اڑا رہی ہے
شانوں پہ اٹھائے لا رہی ہے
*
تارے مست شراب تقدیر
زندان فلک میں پا بہ زنجیر
*
خورشید ، وہ عابد سحر خیز
لانے والا پیام بر خیز
*