جلوۂ حسن
جلوۂ حسن کہ ہے جس سے تمنا بے تاب
پالتا ہے جسے آغوش تخیل میں شباب
*
ابدی بنتا ہے یہ عالم فانی جس سے
ایک افسانۂ رنگیں ہے جوانی جس سے
*
جو سکھاتا ہے ہمیں سر بہ گریباں ہونا
منظر عالم حاضر سے گریزاں ہونا
*
دور ہو جاتی ہے ادراک کی خامی جس سے
عقل کرتی ہے تاثر کی غلامی جس سے
*
آہ! موجود بھی وہ حسن کہیں ہے کہ نہیں
خاتم دہر میں یا رب وہ نگیں ہے کہ نہیں
***