33%

پیام عشق

سن اے طلب گار درد پہلو! میں ناز ہوں ، تو نیاز ہو جا

میں غزنوی سومنات دل کا ، تو سراپا ایاز ہو جا

*

نہیں ہے وابستہ زیر گردوں کمال شان سکندری سے

تمام ساماں ہے تیرے سینے میں ، تو بھی آئینہ ساز ہو جا

*

غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا

جہاں کا فرض قدیم ہے تو ، ادا مثال نماز ہو جا

*

نہ ہو قناعت شعار گلچیں! اسی سے قائم ہے شان تیری

وفور گل ہے اگر چمن میں تو اور دامن دراز ہو جا

*

گئے وہ ایام ، اب زمانہ نہیں ہے صحرا نوردیوں کا

جہاں میں مانند شمع سوزاں میان محفل گداز ہو جا

*

وجود افراد کا مجازی ہے ، ہستی قوم ہے حقیقی

فدا ہو ملت پہ یعنی آتش زن طلسم مجاز ہو جا

*

یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزری کر رہے ہیں گویا

بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار راہ حجاز ہو جا

***