پیام عشق
سن اے طلب گار درد پہلو! میں ناز ہوں ، تو نیاز ہو جا
میں غزنوی سومنات دل کا ، تو سراپا ایاز ہو جا
*
نہیں ہے وابستہ زیر گردوں کمال شان سکندری سے
تمام ساماں ہے تیرے سینے میں ، تو بھی آئینہ ساز ہو جا
*
غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا
جہاں کا فرض قدیم ہے تو ، ادا مثال نماز ہو جا
*
نہ ہو قناعت شعار گلچیں! اسی سے قائم ہے شان تیری
وفور گل ہے اگر چمن میں تو اور دامن دراز ہو جا
*
گئے وہ ایام ، اب زمانہ نہیں ہے صحرا نوردیوں کا
جہاں میں مانند شمع سوزاں میان محفل گداز ہو جا
*
وجود افراد کا مجازی ہے ، ہستی قوم ہے حقیقی
فدا ہو ملت پہ یعنی آتش زن طلسم مجاز ہو جا
*
یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزری کر رہے ہیں گویا
بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار راہ حجاز ہو جا
***