فراق
تلاش گوشۂ عزلت میں پھر رہا ہوں میں
یہاں پہاڑ کے دامن میں آ چھپا ہوں میں
*
شکستہ گیت میں چشموں کے دلبری ہے کمال
دعائے طفلک گفتار آزما کی مثال
*
ہے تخت لعل شفق پر جلوس اختر شام
بہشت دیدۂ بینا ہے حسن منظر شام
*
سکوت شام جدائی ہوا بہانہ مجھے
کسی کی یاد نے سکھلا دیا ترانہ مجھے
*
یہ کیفیت ہے مری جان نا شکیبا کی
مری مثال ہے طفل صغیر تنہا کی
*
اندھیری رات میں کرتا ہے وہ سرود آغاز
صدا کو اپنی سمجھتا ہے غیر کی آواز
*
یونہی میں دل کو پیام شکیب دیتا ہوں
شب فراق کو گویا فریب دیتا ہوں
***