عبد القادر کے نام
اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں
*
ایک فریاد ہے مانند سپند اپنی بساط
اسی ہنگامے سے محفل تہ و بالا کر دیں
*
اہل محفل کو دکھا دیں اثر صیقل عشق
سنگ امروز کو آئینۂ فردا کر دیں
*
جلوۂ یوسف گم گشتہ دکھا کر ان کو
تپش آمادہ تر از خون زلیخا کر دیں
*
اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر
قطرۂ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں
*
رخت جاں بت کدۂ چیں سے اٹھا لیں اپنا
سب کو محو رخ سعدی و سلیمی کر دیں
*
دیکھ! یثرب میں ہوا ناقۂ لیلی بیکار
قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں
*