33%

( جزیرہ سسلی)

صقلیہ

رو لے اب دل کھول کر اے دیدۂ خوننابہ بار

وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار

*

تھا یہاں ہنگامہ ان صحرا نشینوں کا کبھی

بحر بازی گاہ تھا جن کے سفینوں کا کبھی

*

زلزلے جن سے شہنشاہوں کے درباروں میں تھے

بجلیوں کے آشیانے جن کی تلواروں میں تھے

*

اک جہان تازہ کا پیغام تھا جن کا ظہور

کھا گئی عصر کہن کو جن کی تیغ ناصبور

*

مردہ عالم زندہ جن کی شورش قم سے ہوا

آدمی آزاد زنجیر توہم سے ہوا

*

غلغلوں سے جس کے لذت گیر اب تک گوش ہے

کیا وہ تکبیر اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے؟

*

آہ اے سسلی! سمندرکی ہے تجھ سے آبرو

رہنما کی طرح اس پانی کے صحرا میں ہے تو

*

زیب تیرے خال سے رخسار دریا کو رہے

تیری شمعوں سے تسلی بحر پیما کو رہے