عروس شب کی زلفیں تھیں ابھی نا آشنا خم سے
عروس شب کی زلفیں تھیں ابھی نا آشنا خم سے
ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذت رم سے
*
قمر اپنے لباس نو میں بیگانہ سا لگتا تھا
نہ تھا واقف ابھی گردش کے آئین مسلم سے
*
ابھی امکاں کے ظلمت خانے سے ابھری ہی تھی دنیا
مذاق زندگی پوشیدہ تھا پہنائے عالم سے
*
کمال نظم ہستی کی ابھی تھی ابتدا گویا
ہویدا تھی نگینے کی تمنا چشم خاتم سے
*
سنا ہے عالم بالا میں کوئی کیمیا گر تھا
صفا تھی جس کی خاک پا میں بڑھ کر ساغر جم سے
*
لکھا تھا عرش کے پائے پہ اک اکسیر کا نسخہ
چھپاتے تھے فرشتے جس کو چشم روح آدم سے
*
نگاہیں تاک میں رہتی تھیں لیکن کیمیا گر کی
وہ اس نسخے کو بڑھ کر جانتا تھا اسم اعظم سے
*
بڑھا تسبیح خوانی کے بہانے عرش کی جانب
تمنائے دلی آخر بر آئی سعی پیہم سے
*