الہی عقل خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سکھا دے
الہی عقل خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سکھا دے
اسے ہے سودائے بخیہ کاری ، مجھے سر پیرہن نہیں ہے
*
ملا محبت کا سوز مجھ کو تو بولے صبح ازل فرشتے
مثال شمع مزار ہے تو ، تری کوئی انجمن نہیں ہے
*
یہاں کہاں ہم نفس میسر ، یہ دیس نا آشنا ہے اے دل!
وہ چیز تو مانگتا ہے مجھ سے کہ زیر چرخ کہن نہیں ہے
*
نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا
بنا ہمارے حصار ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے
*
کہاں کا آنا ، کہاں کا جانا ، فریب ہے امتیاز عقبی
نمود ہر شے میں ہے ہماری ، کہیں ہمارا وطن نہیں ہے
*
مدیر "مخزن" سے کوئی اقبال جا کے میرا پیام کہہ دے
جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں ، انھیں مذاق سخن نہیں ہے
***