چمک تیری عیاں بجلی میں ، آتش میں ، شرارے میں
چمک تیری عیاں بجلی میں ، آتش میں ، شرارے میں
جھلک تیری ہویدا چاند میں ،سورج میں ، تارے میں
*
بلندی آسمانوں میں ، زمینوں میں تری پستی
روانی بحر میں ، افتادگی تیری کنارے میں
*
شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوق تکلم کی
چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے میں
*
جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے
شجر میں ، پھول میں ، حیواں میں ، پتھر میں ، ستارے میں
*
مجھے پھونکا ہے سوز قطرۂ اشک محبت نے
غضب کی آگ تھی پانی کے چھوٹے سے شرارے میں
*
نہیں جنس ثواب آخرت کی آرزو مجھ کو
وہ سوداگر ہوں ، میں نے نفع دیکھا ہے خسارے میں
*
سکوں نا آشنا رہنا اسے سامان ہستی ہے
تڑپ کس دل کی یا رب چھپ کے آ بیٹھی ہے پارے میں
*
صدائے لن ترانی سن کے اے اقبال میں چپ ہوں
تقاضوں کی کہاں طاقت ہے مجھ فرقت کے مارے میں
***