یوں تو اے بزم جہاں! دلکش تھے ہنگامے ترے
یوں تو اے بزم جہاں! دلکش تھے ہنگامے ترے
اک ذرا افسردگی تیرے تماشاؤں میں تھی
*
پا گئی آسودگی کوئے محبت میں وہ خاک
مدتوں آوارہ جو حکمت کے صحراؤں میں تھی
*
کس قدر اے مے! تجھے رسم حجاب آئی پسند
پردہ انگور سے نکلی تو میناؤں میں تھی
*
حسن کی تاثیر پر غالب نہ آ سکتا تھا علم
اتنی نادانی جہاں کے سارے داناؤں میں تھی
*
میں نے اے اقبال یورپ میں اسے ڈھونڈا عبث
بات جو ہندوستاں کے ماہ سیماؤں میں تھی
***