33%

مارچ ۱۹۰۷ء

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا ، عام دیدار یار ہو گا

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا ، عام دیدار یار ہو گا

سکوت تھا پردہ دار جس کا ، وہ راز اب آشکار ہوگا

*

گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے

بنے گا سارا جہان مے خانہ ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا

*

کبھی جو آوارۂ جنوں تھے ، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے

برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خارزار ہو گا

*

سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر

جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا ، پھر استوار ہو گا

*

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا

سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے ، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا

*

کیا مرا تذکرہ جوساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں

تو پیر میخانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے ، خوار ہو گا

*

دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ، وہ اب زر کم عیار ہو گا

*