حقیقت حسن
خدا سے حسن نے اک روز یہ سوال کیا
جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا
*
ملا جواب کہ تصویر خانہ ہے دنیا
شب دراز عدم کا فسانہ ہے دنیا
*
ہوئی ہے رنگ تغیر سے جب نمود اس کی
وہی حسیں ہے حقیقت زوال ہے جس کی
*
کہیں قریب تھا ، یہ گفتگو قمر نے سنی
فلک پہ عام ہوئی ، اختر سحر نے سنی
*
سحر نے تارے سے سن کر سنائی شبنم کو
فلک کی بات بتا دی زمیں کے محرم کو
*
بھر آئے پھول کے آنسو پیام شبنم سے
کلی کا ننھا سا دل خون ہو گیا غم سے
*
چمن سے روتا ہوا موسم بہار گیا
شباب سیر کو آیا تھا ، سوگوار گیا
***