سوامی رام تیر تھ
ہم بغل دریا سے ہے اے قطرۂ بے تاب تو
پہلے گوہر تھا ، بنا اب گوہر نایاب تو
*
آہ کھولا کس ادا سے تو نے راز رنگ و بو
میں ابھی تک ہوں اسیر امتیاز رنگ و بو
*
مٹ کے غوغا زندگی کا شورش محشر بنا
یہ شرارہ بجھ کے آتش خانۂ آزر بنا
*
نفئ ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا
"ل" کے دریا میں نہاں موتی ہے "الااللہ" کا
*
چشم نابینا سے مخفی معنی انجام ہے
تھم گئی جس دم تڑپ ، سیماب سیم خام ہے
*
توڑ دیتا ہے بت ہستی کو ابراہیم عشق
ہوش کا دارو ہے گویا مستی تسنیم عشق
***