اختر صبح
ستارہ صبح کا روتا تھا اور یہ کہتا تھا
ملی نگاہ مگر فرصت نظر نہ ملی
*
ہوئی ہے زندہ دم آفتاب سے ہر شے
اماں مجھی کو تہ دامن سحر نہ ملی
*
بساط کیا ہے بھلا صبح کے ستارے کی
نفس حباب کا ، تابندگی شرارے کی
*
کہا یہ میں نے کہ اے زیور جبین سحر!
غم فنا ہے تجھے! گنبد فلک سے اتر
*
ٹپک بلندی گردوں سے ہم رہِ شبنم
مرے ریاض سخن کی فضا ہے جاں پرور
*
میں باغباں ہوں ، محبت بہار ہے اس کی
بنا مثال ابد پائدار ہے اس کی
***