11%

مرزا غالب

فکر انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا

ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجا

*

تھا سراپا روح تو ، بزم سخن پیکر ترا

زیب محفل بھی رہا محفل سے پنہاں بھی رہا

*

دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے

بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے

*

محفل ہستی تری بربط سے ہے سرمایہ دار

جس طرح ندی کے نغموں سے سکوت کوہسار

*

تیرے فردوس تخیل سے ہے قدرت کی بہار

تیری کشت فکر سے اگتے ہیں عالم سبزہ وار

*