بلال
چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا
حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجاز میں لایا
*
ہوئی اسی سے ترے غم کدے کی آبادی
تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی
*
وہ آستاں نہ چھٹا تجھ سے ایک دم کے لیے
کسی کے شوق میں تو نے مزے ستم کے لیے
*
جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں
*
نظر تھی صورت سلماں ادا شناس تری
شراب دید سے بڑھتی تھی اور پیاس تری
*
تجھے نظارے کا مثل کلیم سودا تھا
اویس طاقت دیدار کو ترستا تھا
*