11%

سر گزشت آدم

سنے کوئی مری غربت کی داستاں مجھ سے

بھلایا قصۂ پیمان اولیں میں نے

*

لگی نہ میری طبیعت ریاض جنت میں

پیا شعور کا جب جام آتشیں میں نے

*

رہی حقیقت عالم کی جستجو مجھ کو

دکھایا اوج خیال فلک نشیں میں نے

*

ملا مزاج تغیر پسند کچھ ایسا

کیا قرار نہ زیر فلک کہیں میں نے

*

نکالا کعبے سے پتھر کی مورتوں کو کبھی

کبھی بتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے

*

کبھی میں ذوق تکلم میں طور پر پہنچا

چھپایا نور ازل زیر آستیں میں نے

*