صبح کا ستارہ
لطف ہمسایگی شمس و قمر کو چھوڑوں
اور اس خدمت پیغام سحر کو چھوڑوں
*
میرے حق میں تو نہیں تاروں کی بستی اچھی
اس بلندی سے زمیں والوں کی پستی اچھی
*
آسماں کیا ، عدم آباد وطن ہے میرا
صبح کا دامن صد چاک کفن ہے میرا
*
میری قسمت میں ہے ہر روز کا مرنا جینا
ساقی موت کے ہاتھوں سے صبوحی پینا
*
نہ یہ خدمت، نہ یہ عزت، نہ یہ رفعت اچھی
اس گھڑی بھر کے چمکنے سے تو ظلمت اچھی
*
میری قدرت میں جو ہوتا، تو نہ اختر بنتا
قعر دریا میں چمکتا ہوا گوہر بنتا
*