ایک پرندہ اور جگنو
سر شام ایک مرغ نغمہ پیرا
کسی ٹہنی پہ بیٹھا گا رہا تھا
*
چمکتی چیز اک دیکھی زمیں پر
اڑا طائر اسے جگنو سمجھ کر
*
کہا جگنو نے او مرغ نواریز!
نہ کر بے کس پہ منقار ہوس تیز
*
تجھے جس نے چہک ، گل کو مہک دی
اسی اللہ نے مجھ کو چمک دی
*
لباس نور میں مستور ہوں میں
پتنگوں کے جہاں کا طور ہوں میں
*
چہک تیری بہشت گوش اگر ہے
چمک میری بھی فردوس نظر ہے
*