11%

بچّہ اور شمع

کیسی حیرانی ہے یہ اے طفلک پروانہ خو!

شمع کے شعلوں کو گھڑیوں دیکھتا رہتا ہے تو

*

یہ مری آغوش میں بیٹھے ہوئے جنبش ہے کیا

روشنی سے کیا بغل گیری ہے تیرا مدعا؟

*

اس نظارے سے ترا ننھا سا دل حیران ہے

یہ کسی دیکھی ہوئی شے کی مگر پہچان ہے

*

شمع اک شعلہ ہے لیکن تو سراپا نور ہے

آہ! اس محفل میں یہ عریاں ہے تو مستور ہے

*

دست قدرت نے اسے کیا جانے کیوں عریاں کیا!

تجھ کو خاک تیرہ کے فانوس میں پنہاں کیا

*

نور تیرا چھپ گیا زیر نقاب آگہی

ہے غبار دیدۂ بینا حجاب آگہی

*