بچّہ اور شمع
کیسی حیرانی ہے یہ اے طفلک پروانہ خو!
شمع کے شعلوں کو گھڑیوں دیکھتا رہتا ہے تو
*
یہ مری آغوش میں بیٹھے ہوئے جنبش ہے کیا
روشنی سے کیا بغل گیری ہے تیرا مدعا؟
*
اس نظارے سے ترا ننھا سا دل حیران ہے
یہ کسی دیکھی ہوئی شے کی مگر پہچان ہے
*
شمع اک شعلہ ہے لیکن تو سراپا نور ہے
آہ! اس محفل میں یہ عریاں ہے تو مستور ہے
*
دست قدرت نے اسے کیا جانے کیوں عریاں کیا!
تجھ کو خاک تیرہ کے فانوس میں پنہاں کیا
*
نور تیرا چھپ گیا زیر نقاب آگہی
ہے غبار دیدۂ بینا حجاب آگہی
*