کنار راوی
سکوت شام میں محو سرود ہے راوی
نہ پوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مرے دل کی
*
پیام سجدے کا یہ زیر و بم ہوا مجھ کو
جہاں تمام سواد حرم ہوا مجھ کو
*
سر کنارۂ آب رواں کھڑا ہوں میں
خبر نہیں مجھے لیکن کہاں کھڑا ہوں میں
*
شراب سرخ سے رنگیں ہوا ہے دامن شام
لیے ہے پیر فلک دست رعشہ دار میں جام
*
عدم کو قافلۂ روز تیز گام چلا
شفق نہیں ہے ، یہ سورج کے پھول ہیں گویا
*
کھڑے ہیں دور وہ عظمت فزائے تنہائی
منار خواب گہ شہسوار چغتائی
*