نہ آتے ، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
نہ آتے ، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
*
تمھارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
*
بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی!
*
تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی
*
کھنچے خود بخود جانب طور موسی
کشش تیری اے شوق دیدار کیا تھی!
*
کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا
فسوں تھا کوئی ، تیری گفتار کیا تھی
٭ ٭ ٭ ٭