11%

نہ آتے ، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی

نہ آتے ، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی

مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

*

تمھارے پیامی نے سب راز کھولا

خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی

*

بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا

تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی!

*

تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد

مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی

*

کھنچے خود بخود جانب طور موسی

کشش تیری اے شوق دیدار کیا تھی!

*

کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا

فسوں تھا کوئی ، تیری گفتار کیا تھی

٭ ٭ ٭ ٭