11%

لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے

لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے

بجلیاں بے تاب ہوں جن کو جلانے کے لیے

*

وائے ناکامی ، فلک نے تاک کر توڑا اسے

میں نے جس ڈالی کو تاڑا آشیانے کے لیے

*

آنکھ مل جاتی ہے ہفتاد و دو ملت سے تری

ایک پیمانہ ترا سارے زمانے کے لیے

*

دل میں کوئی اس طرح کی آرزو پیدا کروں

لوٹ جائے آسماں میرے مٹانے کے لیے

*

جمع کر خرمن تو پہلے دانہ دانہ چن کے تو

آ ہی نکلے گی کوئی بجلی جلانے کے لیے

*

پاس تھا ناکامی صیاد کا اے ہم صفیر

ورنہ میں ، اور اڑ کے آتا ایک دانے کے لیے!

*