کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے
کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے
نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے
*
بٹھا کے عرش پہ رکھا ہے تو نے اے واعظ!
خدا وہ کیا ہے جو بندوں سے احتراز کرے
*
مری نگاہ میں وہ رند ہی نہیں ساقی
جو ہوشیاری و مستی میں امتیاز کرے
*
مدام گوش بہ دل رہ ، یہ ساز ہے ایسا
جو ہو شکستہ تو پیدا نوائے راز کرے
*
کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے
جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے
*
سخن میں سوز ، الہی کہاں سے آتا ہے
یہ چیز وہ ہے کہ پتھر کو بھی گداز کرے
*