مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظارے کی ہوس ہو تو لیلی بھی چھوڑ دے
*
واعظ! کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبی بھی چھوڑ دے
*
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ ، خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
*
مانند خامہ تیری زباں پر ہے حرف غیر
بیگانہ شے پہ نازش بے جا بھی چھوڑ دے
*
لطف کلام کیا جو نہ ہو دل میں درد عشق
بسمل نہیں ہے تو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے
*
شبنم کی طرح پھولوں پہ رو ، اور چمن سے چل
اس باغ میں قیام کا سودا بھی چھوڑ دے
*