ہمالہ
اے ہمالہ! اے فصیل کشور ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
*
تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تو جواں ہے گردش شام و سحر کے درمیاں
*
ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے
تو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لیے
*
امتحان دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تو
پاسباں اپنا ہے تو ، دیوار ہندستاں ہے تو
*
مطلع اول فلک جس کا ہو وہ دیواں ہے تو
سوئے خلوت گاہِ دل دامن کش انساں ہے تو
*
برف نے باندھی ہے دستار فضیلت تیرے سر
خندہ زن ہے جو کلاہِ مہر عالم تاب پر