درد عشق
اے درد عشق! ہے گہر آب دار تو
نامحرموں میں دیکھ نہ ہو آشکار تو
*
پنہاں تہ نقاب تری جلوہ گاہ ہے
ظاہر پرست محفل نو کی نگاہ ہے
*
آئی نئی ہوا چمن ہست و بود میں
اے درد عشق! اب نہیں لذت نمود میں
*
ہاں خود نمائیوں کی تجھے جستجو نہ ہو
منت پذیر نالۂ بلبل کا تو نہ ہو!
*
خالی شراب عشق سے لالے کا جام ہو
پانی کی بوند گریۂ شبنم کا نام ہو
*
پنہاں درون سینہ کہیں راز ہو ترا
اشک جگر گداز نہ غماز ہو ترا
*