ماہ نو
ٹوٹ کر خورشید کی کشتی ہوئی غرقاب نیل
ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے روئے آب نیل
*
طشت گردوں میں ٹپکتا ہے شفق کا خون ناب
نشتر قدرت نے کیا کھولی ہے فصد آفتاب
*
چرخ نے بالی چرا لی ہے عروس شام کی
نیل کے پانی میں یا مچھلی ہے سیم خام کی
*
قافلہ تیرا رواں بے منت بانگ درا
گوش انساں سن نہیں سکتا تری آواز پا
*
گھٹنے بڑھنے کا سماں آنکھوں کو دکھلاتا ہے تو
ہے وطن تیرا کدھر ، کس دیس کو جاتا ہے تو
*
ساتھ اے سیارۂ ثابت نما لے چل مجھے
خار حسرت کی خلش رکھتی ہے اب بے کل مجھے
*