11%

ماہ نو

ٹوٹ کر خورشید کی کشتی ہوئی غرقاب نیل

ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے روئے آب نیل

*

طشت گردوں میں ٹپکتا ہے شفق کا خون ناب

نشتر قدرت نے کیا کھولی ہے فصد آفتاب

*

چرخ نے بالی چرا لی ہے عروس شام کی

نیل کے پانی میں یا مچھلی ہے سیم خام کی

*

قافلہ تیرا رواں بے منت بانگ درا

گوش انساں سن نہیں سکتا تری آواز پا

*

گھٹنے بڑھنے کا سماں آنکھوں کو دکھلاتا ہے تو

ہے وطن تیرا کدھر ، کس دیس کو جاتا ہے تو

*

ساتھ اے سیارۂ ثابت نما لے چل مجھے

خار حسرت کی خلش رکھتی ہے اب بے کل مجھے

*