گل رنگیں
تو شناسائے خراش عقدۂ مشکل نہیں
اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں
*
زیب محفل ہے ، شریک شورش محفل نہیں
یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں
*
اس چمن میں مَیں سراپا سوز و ساز آرزو
اور تیری زندگانی بے گداز آرزو
*
توڑ لینا شاخ سے تجھ کو مرا آئیں نہیں
یہ نظر غیر از نگاہ چشم صورت بیں نہیں
*
آہ! یہ دست جفا جو اے گل رنگیں نہیں
کس طرح تجھ کو یہ سمجھاؤں کہ میں گلچیں نہیں
*
کام مجھ کو دیدۂ حکمت کے الجھیڑوں سے کیا
دیدۂ بلبل سے میں کرتا ہوں نظارہ ترا
*