33%

مو ج دریا

مضطرب رکھتا ہے میرا دل بے تاب مجھے

عین ہستی ہے تڑپ صورت سیماب مجھے

*

موج ہے نام مرا ، بحر ہے پایاب مجھے

ہو نہ زنجیر کبھی حلقۂ گرداب مجھے

*

آب میں مثل ہوا جاتا ہے توسن میرا

خار ماہی سے نہ اٹکا کبھی دامن میرا

*

میں اچھلتی ہوں کبھی جذب مہ کامل سے

جوش میں سر کو پٹکتی ہوں کبھی ساحل سے

*

ہوں وہ رہرو کہ محبت ہے مجھے منزل سے

کیوں تڑپتی ہوں ، یہ پوچھے کوئی میرے دل سے

*

زحمت تنگی دریا سے گریزاں ہوں میں

وسعت بحر کی فرقت میں پریشاں ہوں میں

***