صدائے.غیب
گرچہ برہم ہے قیامت سے نظام ہست و بود
ہیں اسی آشوب سے بے پردہ اسرار وجود
*
زلزلے سے کوہ و در اڑتے ہیں مانند سحاب
زلزلے سے وادیوں میں تازہ چشموں کی نمود
*
ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب تمام
ہے اسی میں مشکلات زندگانی کی کشود
***
زمین
آہ یہ مرگ دوام، آہ یہ رزم حیات
ختم بھی ہوگی کبھی کشمکش کائنات!
*
عقل کو ملتی نہیں اپنے بتوں سے نجات
عارف و عامی تمام بندۂ لات و منات
*
خوار ہوا کس قدر آدم یزداں صفات
قلب و نظر پر گراں ایسے جہاں کا ثبات
*
کیوں نہیں ہوتی سحر حضرت انساں کی رات؟
***