33%

نظمیں

ابلیس کی مجلس شوری

۱۹۳۶ء

ابلیس

یہ عناصر کا پرانا کھیل، یہ دنیائے دوں

ساکنان عرش اعظم کی تمناؤں کا خوں!

*

اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز

جس نے اس کا نام رکھا تھا جہان کاف و نوں

*

میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب

میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں

*

میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا

میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں

*

کون کر سکتا ہے اس کی آتش سوزاں کو سرد

جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوز دروں

*

جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند

کون کر سکتا ہے اس نخل کہن کو سرنگوں!

***