(۱۵)
ضمیر مغرب ہے تاجران، ضمیر مشرق ہے راہبانہ
وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظہ، یہاں بدلتا نہیں زمانہ
*
کنار دریا خضر نے مجھ سے کہا بہ انداز مجرمانہ
سکندری ہو، قلندری ہو، یہ سب طریقے ہیں ساحرانہ
*
حریف اپنا سمجھ رہے ہیں مجھے خدایان خانقاہی
انہیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ ہو سنگ آستانہ
*
غلام قوموں کے علم و عرفاں کی ہے یہی رمز آشکارا
زمیں اگر تنگ ہے تو کیا ہے، فضائے گردوں ہے بے کرانہ
*
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
*
مری اسیری پہ شاخ گل نے یہ کہہ کے صیاد کو رلایا
کہ ایسے پرسوز نغمہ خواں کا گراں نہ تھا مجھ پہ آشیانہ
***