33%

(۱۵)

ضمیر مغرب ہے تاجران، ضمیر مشرق ہے راہبانہ

وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظہ، یہاں بدلتا نہیں زمانہ

*

کنار دریا خضر نے مجھ سے کہا بہ انداز مجرمانہ

سکندری ہو، قلندری ہو، یہ سب طریقے ہیں ساحرانہ

*

حریف اپنا سمجھ رہے ہیں مجھے خدایان خانقاہی

انہیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ ہو سنگ آستانہ

*

غلام قوموں کے علم و عرفاں کی ہے یہی رمز آشکارا

زمیں اگر تنگ ہے تو کیا ہے، فضائے گردوں ہے بے کرانہ

*

خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی

عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ

*

مری اسیری پہ شاخ گل نے یہ کہہ کے صیاد کو رلایا

کہ ایسے پرسوز نغمہ خواں کا گراں نہ تھا مجھ پہ آشیانہ

***