شاہد صدیقی
جفا کی ظلمت طرازیوں میں وفا کی شمعیں جلا رہے ہیں
حسین(ع) نورِ حیات بن کر تمام عالم پہ چھا رہے ہیں
*
یہ کس مسافر نے جان دے کر بتا دیا ہے سراغِ منزل
یہ کون گذرا ہے کربلا سے کہ راستے جگمگا رہے ہیں
*
حسین(ع) کے ساتھیوں کی راہوں میں حشر تک روشنی رہے گی
یہ اہلِ ہمت ہوا کے رخ پر چراغ اپنا جلا رہے ہیں
*
خود آگہی منزلِ حضوری مقامِ غفلت مقامِ دوری
شعور بیدار ہورہا ہے حسین(ع) نزدیک آ رہے ہیں
*
یہ ظلمت و نور کا تصادم ازل سے جاری ہے اس جہاں
یزید شمعیں بجھا رہا ہے حسین(ع) شمعیں جلا رہے ہیں
*
علی(ع) کو آواز دے کے اٹھئے اگر نہیں ہے کوئی سہارا
حسین(ع) کا نام لیکے بڑھئے اگر قدم لڑکھڑا رہے ہیں
*
امامِ(ع) برحق کا ہر زمانہ میں ربط ہے کاروبارِ حق سے
پیمبری(ص) ختم ہو چکی ہے مگر پیامات آ رہے ہیں
*
مری نگاہوں میں بزمِ ماتم بھی منزلِ امتحاں ہے شاہد
جنہیں مشیت نے آزمایا وہ اب ہمیں آزما رہے ہیں
***