20%

شاہد صدیقی

جفا کی ظلمت طرازیوں میں وفا کی شمعیں جلا رہے ہیں

حسین(ع) نورِ حیات بن کر تمام عالم پہ چھا رہے ہیں

*

یہ کس مسافر نے جان دے کر بتا دیا ہے سراغِ منزل

یہ کون گذرا ہے کربلا سے کہ راستے جگمگا رہے ہیں

*

حسین(ع) کے ساتھیوں کی راہوں میں حشر تک روشنی رہے گی

یہ اہلِ ہمت ہوا کے رخ پر چراغ اپنا جلا رہے ہیں

*

خود آگہی منزلِ حضوری مقامِ غفلت مقامِ دوری

شعور بیدار ہورہا ہے حسین(ع) نزدیک آ رہے ہیں

*

یہ ظلمت و نور کا تصادم ازل سے جاری ہے اس جہاں

یزید شمعیں بجھا رہا ہے حسین(ع) شمعیں جلا رہے ہیں

*

علی(ع) کو آواز دے کے اٹھئے اگر نہیں ہے کوئی سہارا

حسین(ع) کا نام لیکے بڑھئے اگر قدم لڑکھڑا رہے ہیں

*

امامِ(ع) برحق کا ہر زمانہ میں ربط ہے کاروبارِ حق سے

پیمبری(ص) ختم ہو چکی ہے مگر پیامات آ رہے ہیں

*

مری نگاہوں میں بزمِ ماتم بھی منزلِ امتحاں ہے شاہد

جنہیں مشیت نے آزمایا وہ اب ہمیں آزما رہے ہیں

***