شاہد نقدی
مسافر گر چرالیں اپنی نظریں علم کے در سے
تو سارے رابطے کٹ جائیں امت کے پیمبر(ص) سے
*
علی(ع) کے روئے اقدس میں ہے جلوہ ہر پیمبر(ص) کا
نظر ڈالی علی(ع) پر مل لیے ایک اک پیمبر(ص) سے
*
ذرا نامِ مقابل پوچھ لے قبلِ وغا مرحب
تری ماں نے کہا تھا بچ کے رہنا تیغ حیدر(ع) سے
*
دلائل میں نصیری کے یقینا وزن ہے لیکن
جو وہ کہتا ہے میں کہتا نہیں اللہ کے ڈر سے
*
سرِ منبر نبی(ص) کے بعد دنیا آئی تو لیکن
نہ ہو پانی ہے جس بادل میں وہ برسے تو کیا برسے
*
خدا وندا مسلماں کو وہ چشمِ دور رس دے دے
کہ دشتِ خم نظر آنے لگے ہجرت کے بستر سے
*
علی(ع) کا مثل کوئی ڈھونڈ کر لائے تو ہم جانیں
خدا سازی تو آساں ہے بنا لیتے ہیں پتھر سے
*
نظر آئے نہ آئے کوئی ہادی اب بھی ہے شاہد
نہ ہوگر حجتِ قائم(ع) زمیں ہٹ جائے محور سے
***