(۲)
جہانِ ظلم سے اصغر(ع) بھی مسکراکے چلے
بجھانے آئے تھے پیاس اور تیر کھا کے چلے
*
حسینیوں (ع) کے بھی کیسے بڑھے ہوئے دل تھے
قریب آئی جو منزل قدم بڑھا کے چلے
*
علم بدوش تھے لشکر کی جان تھے عباس(ع)
بہ زورِ تیغ زمیں آسماں ہلا کے چلے
*
علی(ع) کے شیر(ع) تھے ہاتھ اپنے کردیئے صدقے
خدا کی راہ میں دنیا سے ہاتھ اٹھا کے چلے
*
حسین(ع) کو جو سکینہ(ع) وغا میں یاد آئی
پلٹ کے خیمہ میں آئے گلے لگا کے چلے
*
چلے جو تشنہ لبِ کربلا سوئے کوثر
لبِ فرات چراغِ وفا جلا کے چلے
*
اسی لئے علی اکبر(ع) جہاں میں آئے تھے
علی(ع) کی شان شبابِ نبی(ص) دکھا کے چلے
*