20%

محمد سعید شفیق بریلوی

یہ کون شخص ہے کیسا دکھائی دیتا ہے

کہ جو بھی دیکھے ہی، اپنا دکھائی دیتا ہے

*

ہے کتنی صدیوں کا گرد و غبار چہرہ پر

یہ مہر پھر بھی چمکتا دکھائی دیتا ہے

*

جو کام آنہ سکا چند تشنہ کاموں کے

ہمیں وہ نام کا دریا دکھائی دیتا ہے

*

کسی کو خوں کی ضرورت کسی کو پانی کی

جسے بھی دیکھو وہ پیاسا دکھائی دیتا ہے

*

نہ جانے خیمہ میں یہ کیسے لوگ بیٹھے ہیں

کہ شمع گل ہے ، اُجالا دکھائی دیتا ہے

*

ہیں اس گھرانے کے سب لوگ ایک قامت کے

کہ جو بھی آتا ہے اونچا دکھائی دیتا ہے

*

کوئی علیؑ کے ہے خوابوں کی ہو بہو تعبیر

کوئی نبی(ص) کا سراپا دکھائی دیتا ہے

*

نہ کچھ تھکن کے ہیں آثار اور نہ موت کا ڈر

ہر ایک چہرہ شگفتہ دکھائی دیتا ہے

*