محمد سعید شفیق بریلوی
یہ کون شخص ہے کیسا دکھائی دیتا ہے
کہ جو بھی دیکھے ہی، اپنا دکھائی دیتا ہے
*
ہے کتنی صدیوں کا گرد و غبار چہرہ پر
یہ مہر پھر بھی چمکتا دکھائی دیتا ہے
*
جو کام آنہ سکا چند تشنہ کاموں کے
ہمیں وہ نام کا دریا دکھائی دیتا ہے
*
کسی کو خوں کی ضرورت کسی کو پانی کی
جسے بھی دیکھو وہ پیاسا دکھائی دیتا ہے
*
نہ جانے خیمہ میں یہ کیسے لوگ بیٹھے ہیں
کہ شمع گل ہے ، اُجالا دکھائی دیتا ہے
*
ہیں اس گھرانے کے سب لوگ ایک قامت کے
کہ جو بھی آتا ہے اونچا دکھائی دیتا ہے
*
کوئی علیؑ کے ہے خوابوں کی ہو بہو تعبیر
کوئی نبی(ص) کا سراپا دکھائی دیتا ہے
*
نہ کچھ تھکن کے ہیں آثار اور نہ موت کا ڈر
ہر ایک چہرہ شگفتہ دکھائی دیتا ہے
*