20%

شکیل بدایونی

نظر وابستۂ ماہِ محرّم ہوتی جاتی ہے

سلامی بزمِ ہستی بزمِ ماتم ہوتی جاتی ہے

*

طبیعت خود بہ خود دلداۂ غم ہوتی جاتی ہے

صدائے دل صدائے سوزِ ماتم ہوتی جاتی ہے

*

ہوائے دہر کی خوں نابہ افشانی ارے توبہ

خزاں بر کف بہارِ بزمِ عالم ہوتی جاتی ہے

*

اُدھر صرفِ ستم گیسو بریدہ فوجِ شامی ہے

اِدھر تیغِ برہنہ اور برہم ہوتی جاتی ہے

*

ہر اک روحِ جفا ہے خود جفاکار و جفاپیشہ

بلا شک داخلِ قعرِ جہنم ہوتی جاتی ہے

*

شہادت جس کو مدت سے سرافرازی کا ارماں تھا

وہ اب پابوسِ محبوبِ دو عالم ہوتی جاتی ہے

*

حسینِ(ع) پاک کی گردن پہ خنجر چلتا جاتا ہے

مکمل داستانِ جورِ پیہم ہوتی جاتی ہے

*

خمِ تیغِ قضا محرابِ کعبہ ہے نگاہوں میں

جبینِ شوق سجدوں کے لئے خم ہوتی جاتی ہے

*