شکیل بدایونی
نظر وابستۂ ماہِ محرّم ہوتی جاتی ہے
سلامی بزمِ ہستی بزمِ ماتم ہوتی جاتی ہے
*
طبیعت خود بہ خود دلداۂ غم ہوتی جاتی ہے
صدائے دل صدائے سوزِ ماتم ہوتی جاتی ہے
*
ہوائے دہر کی خوں نابہ افشانی ارے توبہ
خزاں بر کف بہارِ بزمِ عالم ہوتی جاتی ہے
*
اُدھر صرفِ ستم گیسو بریدہ فوجِ شامی ہے
اِدھر تیغِ برہنہ اور برہم ہوتی جاتی ہے
*
ہر اک روحِ جفا ہے خود جفاکار و جفاپیشہ
بلا شک داخلِ قعرِ جہنم ہوتی جاتی ہے
*
شہادت جس کو مدت سے سرافرازی کا ارماں تھا
وہ اب پابوسِ محبوبِ دو عالم ہوتی جاتی ہے
*
حسینِ(ع) پاک کی گردن پہ خنجر چلتا جاتا ہے
مکمل داستانِ جورِ پیہم ہوتی جاتی ہے
*
خمِ تیغِ قضا محرابِ کعبہ ہے نگاہوں میں
جبینِ شوق سجدوں کے لئے خم ہوتی جاتی ہے
*