شاہد اکبر پوری
(۱)
آیۂ تطہیر نے ہر زخم دل پر لے لیا
جب حرم سے ظلم نے اعزازِ چادر لے لیا
*
اپنے ہی سینے میں شاید قلبِ مادر لے لیا
کیسے اذنِ مرگ تو نے ماں سے اکبر(ع) لے لیا
*
کہہ رہا ہے سجدۂ آخر یہ شہ(ع) کا آج تک
دستِ بیعت تو نہ پایا ظلم نے سر لے لیا
*
عکس بھی ان پر نہ آئے گا ترا موجِ فرات
جن لبوں کی تشنگی نے رنگِ کوثر لے لیا
*
نہر تو اس طرح لے لوں گا کہا عباس(ع) نے
جیسے اک حملے میں کل بابا نے خیبر لے لیا
*
ایک انگڑائی جو آئی آخرت کی یاد میں
حر(ع) نے پائے شاہ(ع) سے اپنا مقدّر لے لیا
*
جنت و کوثر ہیں اُس شبیر(ع) کی اب سلطنت
جس نے تاجِ آخرت سجدے سے اٹھ کر لے لیا
*