20%

شاہد اکبر پوری

(۱)

آیۂ تطہیر نے ہر زخم دل پر لے لیا

جب حرم سے ظلم نے اعزازِ چادر لے لیا

*

اپنے ہی سینے میں شاید قلبِ مادر لے لیا

کیسے اذنِ مرگ تو نے ماں سے اکبر(ع) لے لیا

*

کہہ رہا ہے سجدۂ آخر یہ شہ(ع) کا آج تک

دستِ بیعت تو نہ پایا ظلم نے سر لے لیا

*

عکس بھی ان پر نہ آئے گا ترا موجِ فرات

جن لبوں کی تشنگی نے رنگِ کوثر لے لیا

*

نہر تو اس طرح لے لوں گا کہا عباس(ع) نے

جیسے اک حملے میں کل بابا نے خیبر لے لیا

*

ایک انگڑائی جو آئی آخرت کی یاد میں

حر(ع) نے پائے شاہ(ع) سے اپنا مقدّر لے لیا

*

جنت و کوثر ہیں اُس شبیر(ع) کی اب سلطنت

جس نے تاجِ آخرت سجدے سے اٹھ کر لے لیا

*