(۲)
رو رہے تھے خوف سے جس رات تم غاروں کے بیچ
چین سے اس رات ہم سوئے ہیں تلواروں کے بیچ
*
مدحِ حیدر میں قصیدے دوستانِ اہلِ بیت
دار کے منبر سے پڑھتے ہیں ستم گاروں کے بیچ
*
اب تو ان لوگوں کا کچھ نام و نشاں ملتا نہیں
جو چنا کرتے تھے ہم لوگوں کو دیواروں کے بیچ
*
مل کے پیشانی پہ اپنی خاکِ پائے بو تراب
سرخ رو رہتے ہیں ہم دنیا میں زرداروں کے بیچ
*
محفلِ اعمال میں ہے یوں ولائے اہلِ بیت
ماہِ کامل ضوفشاں ہو جس طرح تاروں کے بیچ
*
ہو مبارک آئے دنیا میں حسین ابنِ علی
مغفرت کا ذکر ہوتا ہے گنہ گاروں کے بیچ
*
کیا عزاداری کو روکیں گی ستم کی آندھیاں
ہم علم لے کر چلے جاتے ہیں انگاروں کے بیچ
*