20%

(۲)

رو رہے تھے خوف سے جس رات تم غاروں کے بیچ

چین سے اس رات ہم سوئے ہیں تلواروں کے بیچ

*

مدحِ حیدر میں قصیدے دوستانِ اہلِ بیت

دار کے منبر سے پڑھتے ہیں ستم گاروں کے بیچ

*

اب تو ان لوگوں کا کچھ نام و نشاں ملتا نہیں

جو چنا کرتے تھے ہم لوگوں کو دیواروں کے بیچ

*

مل کے پیشانی پہ اپنی خاکِ پائے بو تراب

سرخ رو رہتے ہیں ہم دنیا میں زرداروں کے بیچ

*

محفلِ اعمال میں ہے یوں ولائے اہلِ بیت

ماہِ کامل ضوفشاں ہو جس طرح تاروں کے بیچ

*

ہو مبارک آئے دنیا میں حسین ابنِ علی

مغفرت کا ذکر ہوتا ہے گنہ گاروں کے بیچ

*

کیا عزاداری کو روکیں گی ستم کی آندھیاں

ہم علم لے کر چلے جاتے ہیں انگاروں کے بیچ

*