شوکت تھانوی
دردِ حسرت اور ہے صحرائے غربت اور ہے
رنج سب کے اور ہیں شہ کی مصیبت اور ہے
*
خاک و خوں میں لوٹتا ہے ایک شاہ تشنہ کام
کربلا کیا اب بھی دل میں کچھ کدورت اور ہے
*
اک مسافر سے زمانہ برسرِ پیکار ہے
کیا ستم کی اس سے بڑھ کر بھی کدورت اور ہے
*
ہاتھ کرتے ہو قلم تھوڑے سے پانی کے لئے
ظالموں اس سے بھی بڑھ کر کیا شقاوت اور ہے
*
آگئے عون و محمد رن میں ماں کو چھوڑ کر
کیا کسی کمسن کے دل میں اتنی جرأت اور ہے
*
ظاہرا مظلوم سے معلوم ہوتے ہیں حسین
غور سے دیکھے جو کوئی تو حقیقت اور ہے
*
ملکِ دنیا سے کہیں پائندۂ ہے ملکِ بقا
باغِ شدّاد اور ہے گلزارِ جنت اور ہے
*
شمر ُیوں غربت زدہ سے کوئی لڑتا ہے کبھی
اے ستم ایجاد ہمت کر کہ ہمت اور ہے