20%

شہاب کاظمی

(۱)

ایک ہے انسان ایسا سارے انسانوں کے بیچ

جس طرح ر ّکھی ہوئی ہو شمع پروانوں کے بیچ

*

ہم سے پوچھو ہم بتائیں گے وفا کیا چیز ہے

زندگی ہم نے گزاری ہے عزائ خانوں کے بیچ

*

وہ مدینہ ہو کہ مشہد کربلا ہو کہ نجف

ایک ہی جلوہ ہے سارے آئینہ خانوں کے بیچ

*

اس کو کیا کہئے جسے ہو عصمتِ مرسل پہ شک

بات یہ رکھتا ہوں میں سارے مسلمانوں کے بیچ

*

منزل انفس پہ یہ آئیں نبی کے ساتھ اگر

صورتِ مطلق نکل آتی ہے امکانوں کے بیچ

*

خونِ ناحق ہے جبینوں سے عیاں ہو جائے گا

انگلیاں ہر چند رکھیں لوگ دستانوں کے بیچ

*

اک امامت پر نہیں ہے منحصر جورِ یزید

کٹ گئے دَورِ امامت کتنے زندانوں کے بیچ

*