شہاب کاظمی
(۱)
ایک ہے انسان ایسا سارے انسانوں کے بیچ
جس طرح ر ّکھی ہوئی ہو شمع پروانوں کے بیچ
*
ہم سے پوچھو ہم بتائیں گے وفا کیا چیز ہے
زندگی ہم نے گزاری ہے عزائ خانوں کے بیچ
*
وہ مدینہ ہو کہ مشہد کربلا ہو کہ نجف
ایک ہی جلوہ ہے سارے آئینہ خانوں کے بیچ
*
اس کو کیا کہئے جسے ہو عصمتِ مرسل پہ شک
بات یہ رکھتا ہوں میں سارے مسلمانوں کے بیچ
*
منزل انفس پہ یہ آئیں نبی کے ساتھ اگر
صورتِ مطلق نکل آتی ہے امکانوں کے بیچ
*
خونِ ناحق ہے جبینوں سے عیاں ہو جائے گا
انگلیاں ہر چند رکھیں لوگ دستانوں کے بیچ
*
اک امامت پر نہیں ہے منحصر جورِ یزید
کٹ گئے دَورِ امامت کتنے زندانوں کے بیچ
*