(۳)
الفتِ حیدر سے ہے دل میں تماشا اور کچھ
زندگانی اور شئے ٹھہری ہے مرنا اور کچھ
*
ِگھر کے طوفاں میں کہا جب یا علی مُشکلکشا
لاکے ساحل پر ہمیں موجوں نے پوچھا اور کچھ
*
سنتے ہی نامِ علی وہ اٹھ گیا اچھا ہوا
بیٹھتا کچھ دیر محفل میں تو سنتا اور کچھ
*
لیکے بخشش کی سند ہم شرم سے چپ رہ گئے
ورنہ رضواں تو برابر پوچھتا تھا اور کچھ
*
ہم سے کہتے ہیں کہ ہم بھی اُس کی سنت پر چلیں
جس نے فرمانِ نبی رد کرکے مانا اور کچھ
*
کیوں نہ آجاتی شبِ ہجرت علی کو گہری نیند
چھائوں میں تیغوں کی سونے کا مزا تھا اور کچھ
*
یہ بھی انکارِ غدیرِ خم سے ثابت ہوگیا
دل میں تھا اسلام لے آنے کا منشائ اور کچھ
*
وہ تو یہ کہئے نہ دی اِذنِ وغا عباس کو
کَربلا کا ورنہ ہوجانا تھا نقشا اور کچھ
*